مرے
وجود کے ریزے ہوا میں اڑتے ہیں
کہ دِکھ رہے ہیں یہ دو دو تو چار چار مجھے
تمہاری تیغ سی ابرو نے مجھ کو
زیر کیا
تری
اداؤں نے توڑا ہے مار مار مجھے
سیاہ
زلف نے بل کھا
کے مجھ کو جکڑا ہے
تمہاری زلف کا ڈستا ہے
مار مار مجھے
تمہارے ہجر نے بخشی ہیں شہرتیں مجھ کو
پکارتا ہے مصائب کا دار دار مجھے
نشاطِ گل کو ترستا
ہوں باغبانے میں
ہر
ایک سو نظر آتے ہیں خار
خار مجھے
تجھے وہ بھول چکا، تو بھی بھول جا اس کو
ستارے کہتے ہیں شب بھر
یہ بار بار مجھے
تری
اداؤں کا اعجاز
غم رسیدہ ہے
تری
اداؤں کا ہے یاد وار وار مجھے
0 تبصرے