آب و دانہ ہو بہم دشت میں حیرانی کو

اے خدا خیر سے رکھیو میری دیوانی کو

 

جا بجا پھیل گئے رات کے سائے،پھر بھی

کوئی بیتاب ہے توفیقِ درخشانی کو

 

کس نے پھینکا ہے سرِ خاک اَنا کا جُبّہ_؟

کون  پہچان گیا عظمتِ عریانی کو_؟

 

حُسنِ گفتارِ پری زاد وہ کیا سمجھے گا

جس نے دیکھا ہی نہ ہو بہتے ہوئے پانی کو

 

منہدم ہونے سے پہلے ہی مجھے موت آئی

شکر ہے دیکھا نہیں شہر کی ویرانی کو

 

خلوتِ جاں میں خلل پڑتا ہے،لیکن مالک

اک سراپا تو میسر ہو غزل خوانی کو


آب و دانہ ہو بہم دشت میں حیرانی کو
آب و دانہ ہو بہم دشت میں حیرانی کو