تعبیر بھی تسخیر بھی تعمیر بھی تھا

وہ شخص میری نگاہ کی تصویر بھی تھا

 

کبھی تفصیل تھا میری حیات کی وہ

کبھی آنکھوں میں لکھی حسیں تحریر بھی تھا

 

مجھ سے ہی نہ نبھا پایا رسم ء وفا وہ

یوں تو جزبات کی اک تفسیر بھی تھا

 

کسے گوارا تھی اس راہ پہ رسوائی اسکی

اسے معلوم نہیں شاید وہ میری توقیر بھی تھا

 

اس کی جیت میں فقط اس کا کمال کہاں

دیوانہ تھا اس کا کوئی اسیر بھی تھا

 

وہی بے خواب کر گیا آنکھیں میری

میرے ہر خواب کی جو تعبیر بھی تھا

 

کچھ تلخی ء دوراں کا بھی دوش تھا عنبر

 میرے اشعار کی کچھ عشق تاثیر بھی تھا

 

تعبیر بھی تسخیر بھی تعمیر بھی تھا